Deen e Islam


اسلام ایک دین یعنی مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں راہ نمائی فراہم کرتا ہے
 
ایک معتدل انسان بھی وہی ہوتا ہے جو زندگی کے ان چار شعبوں ( مذہب ، سیاست ، معاشرت اور معیشت) میں مناسب انداز میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
 
مذہب (یعنی عبادات) ہی مکمل دین نہیں ہے بلکہ سیاست ، معاشرت اور معیشت کو بھی دین اسلام کے عطا کردہ اصولوں کے مطابق کرنا  کار ثواب ہے۔
Deen e Islam
Rizwan Ali

بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں

_*بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں؟*_
تحریر  مونا کلیم!
ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ 
*بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہئے یا نہیں؟*
اس *موضوع* پہ اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں.مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فیصد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللّہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی.
1- *بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں*
آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں.
2- *بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں* تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے.
3- *بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں.* اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
4- *بچوں کو فارغ مت رکھیں*
فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.
5- *ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں* تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
6- *بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں*
یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. *اللّہ تعالی*ٰ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.
7- *بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ھی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے.* 
8- *اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں.* کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
9- *بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں.*
*_حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے._* ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.
10- *بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں.* اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
11- *بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں.* یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے. 
12- *بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں.* بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.
14- *بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.*
15- *بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں.* آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے
اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
16- *بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں*
17- *والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.*ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں. ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
18- *13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب
Teenage Tinglings پڑھنے کو دیں.* اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے .یاد رکھیں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.
18- *تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں* یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح *حضرت یوسف علیہ السلام* نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں *اللّہ تعالی*ٰ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں *انشاءاللّہ تعالیٰ*اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
_آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو *انشاءاللّہ تعالیٰ*آخرت میں *اللّہ سبحان وتعالیٰ*کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے._*اللّہ تعالیٰ*امت _مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے.!!!_ *آمین!*

رائیٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو گیارہ مشورے

رائیٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو گیارہ مشورے

پچھلے چند ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ اگلے روز ایک دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اج کل دے منڈے فیس بک پر ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے کسی مثبت ، تعمیری کام سے لگ گئے ہیں۔ مجھے زیادہ خوشی اس کی ہے کہ نوجوان کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جو ہمارے سماج کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سب کے پیچھے محرک قوت تو محترم وجاہت مسعود اور ان کی ہم خیال دوستوں کی جانب سے شروع کردہ مکالمہ نما یدھ یا یدھ نما مکالمہ ہے ۔ اس نے وہی کام کیا جو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور خاص کر ستر کے عشرے کے اوائل میں ترقی پسندوں کی جانب سے آنے والی یلغار سے ہوا تھا۔ اس نے دائیں بازو کے مذہبی سوچ رکھنے والے نوجوان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ انہیں اپنی نظریاتی شناخت خطرے میں نظر آئی تو وہ کھڑے ہوئےا ور اپنی پوری صلاحیتیں اور قوت نظریاتی ، فکری دفاع میں کھپا دیں۔ اس بارقدرت نے یہ نیک کام جناب وجاہت مسعود اور ان کے فکری ہم سفروں سے لیا۔ میرے دل میں ان کا احترام اس لئے زیادہ ہے کہ ایک نالائق یا اوسط درجے کے فکری حامی سے میرے نزدیک ذہین ، سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دینے والا نظریاتی مخالف اہم ہے ۔ سماج میں جمود سے نظریاتی ہلچل پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ فکری مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔ کنزیومر ازم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھ رہا ہوں ، داد دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، بعض پوسٹیں تو اپنی وال پر بھی شئیر کیں۔ یہ سب سوال جواب بلکہ جواب الجواب پڑھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ پرجوش نوجوانوں کو چند ایک مفت کے مشورے دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے تو ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر میں نے اپنے رائیٹ ونگ کے نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر یہ تحریر لکھی ہے تو ممکن ہے دوسروں کے لئے بعض باتیں سودمند نہ ہوں۔ (یاد رہے کہ ان تمام مشوروں کو نظرانداز کرنے کی آپشن بدستور موجود ہے، کسی پر پابندی نہیں، ہر ایک اپنے انداز میں سوچ اور اس کا اظہار کر سکتا ہے ۔ )
نمبر ایک : اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانئیے کا کھیل ۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔
اے: اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے ، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے گے،مگر اہداف وہی ہیں ۔ جان پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف فیز میں لڑی جاتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہم سے بعد میں یہی مسائل، مکالمے اور مجادلے چلتے رہیں گے۔
بی : ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے ، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔
سی : بہتر ہو گا کہ لکھنے والے اپنے اپنے کام کا تعین کر لیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم میں کسی کا کام بائولنگ، کوئی بلے باز اور ایک وکٹ کیپر ہوتا ہے ۔ ہر ایک کی سپیشلیٹی ہوتی ہے۔ بیانیہ کی جنگ میں مل جل کر بھی کام ہوسکتا ہے ۔ جسے تحقیق میں دلچسپی ہے، وہ حوالہ جات پر محنت کرے اور اس اعتبار سے مواد سامنے لے آئے ، کسی کو سوالات اٹھانے میں مہارت ہے، وہ اس طرف کا رخ کرے، کسی کا ہنر مرصع نثرلکھنا ہے تو وہ اس پر ہی فوکس کرے، مغربی لٹریچر سے رسائی رکھنے والوں کو اس اینگل کو کور کرنا چاہیے ۔
نمبر دو : مکالمہ ہر حال میں نہایت شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دشنام اور اختلاف رائے کرنے والے پر لیبل چسپاں کرنے سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ رائیٹسٹوں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی مائنڈ سیٹ کے علمبردار ہیں اور ان کے تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لئے اخلاق ، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے ۔
ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسن عظیم حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکار مدینہ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے امتی، ان کے نام لیوا دین اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا رائیٹسٹ صرف اس لئے اس میدان میں اترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصور دین کا دفاع کرتا ہے کہ روز آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لئے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے ۔ بد تمیزوں، بد اخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے کے عادی لوگوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ رائٹسٹوں، اسلامسٹوں کو ایسے تمام لوگوں سے خود کو دور کرلینا چاہیے ، ان سے اعلان لاتعلقی کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ گھیٹا دفاع سے دفاع نہ کرنا افضل ہے۔
نمبر تین : یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس ہونے یا ہمت ہار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامسٹوں کی جدوجہد اور نوعیت کی ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل سے اسلامسٹوں نے بہت اہم آئینی جنگیں جیتی ہوئی ہیں۔ دستور پاکستان سے قرار داد مقاصد یا ملک سے اسلامی لفظ ہٹانا، یا پھر توہین رسالت قانون میں ترمیم وغیرہ ، یہ سب سیکولرسٹوں کا ایجنڈا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن ہر بار انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا خواب وہی دیکھ رہے ہیں،اس کی فکر بھی انہیں ہی ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ نے تو جو کچھ حاصل کرنا تھا بڑی حد تک کر لیا، اب فوکس آئین پر عملدرآمد کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام پر کرنا چاہیے ۔ دعوت، تعلیم ، تربیت کا جوکام انفرادی، گروہی یا جماعتوں کی حد تک ہوسکتا ہے، وہ کیا جائے، حکومت میں آ کر ریاستی وسائل کی مدد سے کچھ کرنے کے مواقع جب ملیں تو ایسا کیا جائے ، نہ مل سکیں تو کم از کم پریشر گروپس کا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔
نمبر چار : ممکن ہے پوائنٹ نمبر تین پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایسی صورت میں پھر اتنی محنت کی ضرورت کیا ہے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ اسلامسٹوں کو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے جوابی بیانیہ تشکیل دینا پڑتا ہے اور رہے گا۔ سیکولروں کے سوالات کے جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرز فکرکو دلوں میں بسانے، دماغ میں اتارنے کے لئے استدلال ہی واحد ذریعہ ہے۔ نئی نسل تک اپنی بات دلیل کے ساتھ پہنچانی ہے۔ ان کے ذہنوں میں موجود الجھنیں کھولنی، سلجھانی اور مذہب کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ بہت سے مذہبی گھرانوں کے بچے ردعمل میں دوسری طرف اس لئے چلے جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے نئی نسل کے سوالات کے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی، وہ سمجھتے تھے کہ شاہد ان کی فکر اولاد کے ذہنوں میں خود بخود منتقل ہوجائے گی ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
نمبر پانچ: ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں کو آپ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ قائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلا قائل ہونے پر آمادہ ہو۔ جس نے طے کر رکھا ہو کہ مابعدالطبعیات کچھ نہیں اور صرف مادہ ہی سب کچھ ہے، اسے آپ مذہب کی اہمیت پر کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ جو روز آخرت پر ہی یقین نہ رکھتا ہو، سرے سے خدا یا اس کے پیغمبر کے وجود ہی پر اسے شک ہو، اسے کس طرح الہامی دانش کا پیروکار بنایا جا سکتا ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ سیکولر سوچ رکھنے والے تمام ایسے ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ ایشو نہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی شخص کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بعض ردعمل میں سیکولر ہوئے، کچھ کو مذہبی جماعتوں یا بعض تنگ نظر مولوی صاحبان کی شدت اور بے تدبیری اس جانب لے آئی، ایسے بھی بہت ہیں جو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی متشددانہ پالیسیوں، لوگوں کو زبح کرنے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے جیسی ویڈیوز دیکھ کر مذہب کا نام لینے والے ہر ایک گروہ سے متنفر ہوگئے۔ سیکولر سوچ رکھنے والوں میں یہ تمام شیڈز موجود ہیں، مگر سیکولرازم کی خالص علمی بنیادیں الحاد اور مذہب بیزاری پر استوار ہیں، اس لئے ان سے زیادہ دیر بچا نہیں جا سکتا۔
سیکولروں کی ہارڈ کور کو متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود یہ مکالمہ جاری رکھنا ہوگا، اسلامی بیانیہ پوری صراحت اور گہرائی کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ہدف وہ لوگ ہیں جو ابھی درمیاں میں ہیں، سوئنگ ووٹرکی طرح سوئنگ پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ابھی کسی جانب نہیں گئے، وہ لوگ جوکسی وجہ سے سیکولر ہوگئے ، مگر وہ مذہب کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں چند کامن پوائنٹس پر قریب کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لوگ بھی جو مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، رائٹسٹ ہیں، مگرانہیں دوسروں سے بات کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ کمی، ضرورت رائٹسٹ لکھاریوں کو پوری کرنا ہے۔
نمبر چھ : سیکولرسٹوں سے بحث کرتے ہوئے ان کی کج بحثی اور مذہب پر حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ ہم لوگ بعض چیزوں کو پہلے سے طے شدہ لے کر چلتے ہیں، سوچتے ہیں کہ بعض سیاسی سوال اور بحثیں ہوں گی، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی بات نہیں کرے گا۔ اسی طرح پاکستان کے حوالے سے ہم میں سے بہت سوں کو اس وقت شاک لگتا ہے،جب نظریہ پاکستان، قائداعظم، اقبال، لیاقت علی خان ، علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ پر کوئی حملہ آور ہو۔ ہم اس سے یہ حملہ توقع نہیں کر رہے ہوتے، اسے ناف کے نیچے وار سمجھتے ہیں۔ اس سب کے لئے مگر پہلے سے تیار ہونا چاہیے ۔
نمبر سات: یہ بات بھی اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اسلامی نظام، اسلامی معاشرے کا قیام نظریہ پاکستان ، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ تقسیم کے مخالف ہوں، قائداعظم یا نظریہ پاکستان سے وابستگی نہ رکھتے ہوں یا اس درجہ حساسیت کے حامل نہ ہوں اور اپنے مذہبی میلان کی وجہ سے پاکستان میں نفاذ اسلام کی بات کریں، تحریک چلائیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس پر یکسوئی حاصل کر لیں۔ اگر نظریہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے، اسلامی مملکت کے دعوے، خواب سے ہاتھ کھینچ لیا تو پھرملک میں اسلامی قوانین، اسلامی معاشرے کا خواب بھی بھول جائیں۔ پاکستان تب لفظی طور پر نہ سہی، عملی طور پر سیکولر ریاست بن جائے گی۔
نمبر آٹھ : (پوائنٹ نمبر سات کی یہ ایکسٹینشن ہی ہے، مگر اہمیت واضح کرنے کے لئے اسے الگ پوائنٹ بنایا ہے۔) یاد رکھیں ،تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوران تحریک کئے گئے وعدے ہی وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، جس پر پوری اسلامی تحریک استوار ہوتی ہے، قرارداد مقاصد اس کے بغیر پاس ہونا ممکن نہں تھی۔ سیکولر حلقہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے، اس لئے وہ بار بار قراردار مقاصد پر حملہ آور ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑاتا ، اسے بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیاقت علی خان کے قد کاٹھ کو چھوٹا ثابت کرنا، علامہ شیبر احمد عثمانی پر حملے محض اس لئے کئے جاتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے موید یہی لوگ تھے۔ جب ان پر سے تقدس کا لبادہ نوچ کر الگ کر لیا جائے تو پھر اس قرارداد کی حیثیت کسی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کی سی رہ جاتی ہے۔
نمبر نو : یاد رکھیں کہ قائداعظم رحمتہ اللہ کی شخصیت بھی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے، یہاں اسلامی نظام قائم کرنے اور رول ماڈل اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سپنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں قائداعظم کہتے رہے تھے، ان کے بے شمار جملے، فقرے ، بیانات اور انٹرویوز اس حوالے سے ہیں۔ چونکہ قائداعظم کی ذات پاکستان اور پاکستانی عوام سے منسلک ہے،اس لئے سیکولر حلقہ قائد کی گیارہ اگست والی تقریر کے حوالے دینے پر مجبور ہے، سمجھدار سیکولر جانتے ہیں کہ قائداعظم کی الفاظ کی تعبیر وتشریح کر کے ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا آسان ہے،اسی لئے بار بار اسی ایک تقریر کے حوالے دئیے جاتے رہیں گے۔ شدید بوریت کے باوجود ہمیں یہ سب سہنا پڑے گا، جواباً بار بار قائد کی دوسری تقاریر کے حوالے دینے پڑیں گے۔بار بار ایسا کرنا پڑے گا۔ یہ عمل دونوں طرف سے جاری رہے گا، شائد آنے والے برسوں، عشروں تک۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بیشر سیکولر قائداعظم کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنی تحریروں میں التزام کے ساتھ انہیں جناح صاحب لکھیں گے۔ یہ دراصل لٹمس ٹیسٹ ہے، جدید دور کا کوئی بھی لکھاری جو اپنی کسی تحریر میں قائداعظم کے بجائے جناح صاحب لکھے، سمجھ لیجئے کہ اس کے اندر کا تعصب اور قائداعظم کے لئے نفرت اور بیزاری ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ جناح صاحب لکھنے کی آزادی صرف ان کے ہم عصروں کو دی جا سکتی تھی، باچا خان یا جی ایم سید ایسے آخری لوگ تھے۔ ان کے بعد کی نسلوں کو یہ حق نہیں ۔ ہمارے قائد محمد علی جناح کو قائداعظم کہنا پاکستانی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس روایت کو تسلیم بھی عرصہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ اس سے انحراف وہی کرے گاجو قائد کی دشمنی اور مخالفت میں اعتدال کی حدعبور کر چکا ہو، ورنہ کوئی بھی سمجھدار سیکولر ایسی غلطی کر کے خود کو بے نقاب نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ اکثر دیکھا جائے گا کہ مولانا آزاد کو اکثر سیکولر لکھاری بہت اہمیت دیں گے، مولانا کے علمی قد کاٹھ سے زیادہ بغض قائداعظم اس کا باعث ہوگا۔
علما کے حلقے میں سے ایک گروپ جو زہنی طور پر جمعیت علما ہند کے قائدین سے زیادہ قریب ہے، ان کے لئے بھی قائداعظم کی شخصیت کو تسلیم اور قبول کرنا آسان نہیں، مگر پاکستان مین اسلامی جدوجہد کے لئے قائداعظم کی شخصیت کو ساتھ لے کر ہی چلا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ لوگ اپنے تصور کا دوبارہ سے جائزہ لیں اور تحریک پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح علامہ اقبال اور حضرت مدنی والے مناقشہ کے بعد کچھ لوگ اقبال کے لئے بھی ناپسندیدگی کی ایک زیریں لہر رکھتے ہیں، انہیں بھی اقبال کی عظمت کو ازسرنو سمجھنا ہوگا۔ اقبال کا ورلڈ ویو حیران کن ہے۔ اسلامی معاشرے یا اسلامی ریاست کے لئے اقبال کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
نمبر دس: یہ بات شروع میں آنی چاہیے تھی، مگر اس پر اختتام کرنا بھی کم اہم نہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام اور سیکولرازم کا امتزاج کسی طور ممکن نہیں۔ کسی بھی ملک میں یا تو اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولرریاست ، اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا یا پھر سیکولر معاشرہ۔ ان کو ملانے کی بچکانہ کوشش کبھی کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ کسی قسم کا دیسی مسلم سیکولرازم ممکن تھا، ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ دیسی مسلم سیکولرازم نام کی کسی اصطلاح کا کوئی وجود نہیں، یہ بن بھی نہیں سکتی۔ بات سادہ سی ہے کہ آپ نے یہ طے کرنا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ریاست میں رہنا ہے یا پھر بندوں کی بنائی ہوئی ریاست میں، اللہ کے بتائے ہوئے قوانین، وضوابط پر عمل کرنا ہے یا پھر انسانی عقل سے آخذ کئے ہوئے قوانین کو چلانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان دونوں تصورات کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
یہ نقطہ بھی واضح ہوجائے کہ پاکستانی تناظر میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا ماڈل ہی قابل قبول ہوگا۔ حضرت علامہ حسین احمد مدنی کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ماڈل بھارتی ماڈل ہے، ایک ایسے معاشرے کا جہاں کثیر المذاہب لوگ رہتے ہوں، جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں۔ سیکولرازم کا مطالبہ وہیں ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی کہے کہ بھارت میں اسلام نافذ کیا جائے تو اس کی عقل پر شک کیا جائے گا، پاکستان میں البتہ یہ مطالبہ ہوگا اور قابل فہم بھی سمجھا جائے گا۔ دیوبند مکتب فکر کے لوگوں کو یہ مان لینا چاہیے کہ جمعیت علما ہند بھارت کے لئے ہے اور جمعیت علما اسلام پاکستان کے لئے۔ اس بیریر سے گزرنے کے بعد یہ لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا آزاد کے علمی ، ادبی سحر میں کون گرفتار نہیں، مگر پاکستانی بیانیہ میں قائداعظم پہلے آتے ہیں، مولانا آزاد اس فریم ورک میں فٹ نہیں ہوتے۔ نہایت احترام کے ساتھ انہیں بھارتی سیکولرسٹوں کے لئے چھوڑ دیجئے ۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بھی ہمارے ہاں سب سے زیادہ ذوق شوق سے تقسیم ہند کے مخالف اور سیکولر حلقے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کے بیانیہ میں فٹ ہوتی ہے۔ بڑے پیار اور احترام کے ساتھ مولانا آزاد سے اختلاف کیجئے۔ ہو سکے تو منیر احمد منیر کی کتاب مولانا آزاد کی پیش گوئیاں پڑھ لیجئے،دوسرارخ سامنے آ جائے گا۔
اسی طرح جاوید غٓامدی صاحب کا یہ تصور کہ ریاست سیکولر ہو، حکومت البتہ مسلمان ہوگی، یہ بھی آخری تجزیے میں سیکولرسٹوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ جناب غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ کی فکر ایک خاص سٹیج پر جا کر سیکولر فکر کے ساتھ ہی جا کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بیانیہ پر کبھی سیکولر تنقید نہیں کریں گے، انہیں سوٹ جو کرتا ہے ۔ غامدی صاحب پر ہمیشہ اسلامسٹوں کی طرف سے تنقید،اور جواب بیانیہ دیا جاتا ہے۔
نمبر گیارہ : اب تک ان بحثوں کو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیکولر دوست کس طرح بات کو ایک جگہ سے کھینچ کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں، ایک ساتھ کتنے مفروضے ، مغالطے بھر دیتے ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ جواب نہ دیا جا سکے۔ دانستہ طور پر رائیٹسٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین ماضی میں مسائل رہے ، تو ان نکات کو بار بار اٹھایا جائے گا۔ جماعت اسلامی والوں کو الجھانے کے لئے تقسیم کے وقت مولانا مودودی کی آرا کا مسئلہ چھیڑا جائے گا، کبھی جماعت کی مسلم لیگی مخالفت پر سوال ہوگا، کبھی کسی اورایشو کو چھیڑ دیا جائے گا۔ اس کا صاف جواب دینا چاہیے کہ یہ سب ماضی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی نقطہ یہی ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہو یا سیکولر؟ اسلامی نظام آنا چاہیے یا سیکولر نظام؟ ہماری اخلاقی نظام کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا پھر اس اخلاقیات کی تشکیل ہر ایک خود کرتا پھرے۔ ان بنیادی سوالات پر بحث مرکوز رکھنی چاہیے، نان ایشوز میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی توانائیاں ادھر صرف نہ کی جائیں۔ ہر حلقہ فکر کی طرح رائیٹ ونگ میں فالٹ لائنز موجود ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے سے گریز کریں۔ آپس میں لڑنے کے بجائے اصل مدعے کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اجر بھی اسی کا ملنا ہے۔ یہ اپنی مسلکی، جماعتی شناخت سے اٹھ کر دین اسلام کے لئے فکری جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔ اللہ سے مدد مانگئیے ، وہی توفیق دے گا، تحریر اور خیالات میں برکت اور وہی قبول بھی فرمائے گا۔
اسلامسٹ بیانیہ کے لئے معروف مذہبی کتب کا سب کو علم ہی ہے، میں دو تین کتابوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق جان کی سیکولرازم، مغالطے ، مباحثے ہے۔ اسے منشورات لاہور نے شائع کیا ہے ، اس کی ای بک بھی دستیاب ہے۔ ڈاکٹر طارق صاحب نے بڑی عمدگی سے کئی ایشوز پر قلم اٹھایا ہے۔ اس پڑھنا فائدہ مند ہوگا۔ قائداعظم کے اسلامی تصور کے حوالے سے بہت سی کتب شائع ہوچکی ہیں، کسی سے حوالہ جات کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اسد کا کام بھی ان مباحث میں بہت کارآمد ہے۔ ان کی کتاب یورپین بدو کمال کی ہے۔ علامہ اسد نے اس پر بھرپور بحث کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی دستور کیوں بنایا جائے؟ پروفیسر احمد رفیق اختر نے بھی سیکولرازم کے خلاف بھرپور طریقے سے لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی سیکولرازم کی علمی بنیاد جو الحاد پر مشتمل ہے، اس پر کڑی تنقید ہے۔ اسے پڑھنے سے نئے دلائل ملیں گے۔
(معروضات از عامر خاکوانی )

گرل فرینڈ یا جدید دور کی "لونڈی"

گرل فرینڈ یا جدید دور کی "لونڈی"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل زمانہ قدیم میں عورت کے دو سٹیٹس چلے آ رہے تھے
ایک:
باعزت ، خاندانی خاتون جس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے لئے باقاعدہ نکاح کیا جاتا تھا
دوسری:
منڈیوں میں بکنے والی ، قابل خرید و فروخت عورت جس کو "لونڈی" کہا جاتا تھا،
لونڈی کا سٹیٹس یہ تھا کہ جو بھی اس کا ریٹ لگا کر اس کو خرید لیتا وہ اسی کی ہوتی اور اس کے ساتھ اس کا مالک بغیر نکاح کے جنسی تعلقات قائم کر سکتا تھا ، اسے تقریبا قانونی حیثیت حاصل تھی۔
اسلام نے غلامی کے تصور کی حوصلہ شکنی کی اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کروا دیا
لیکن
آج پھر کچھ لڑکیاں اپنے آپ کو باعزت ، خاندانی اور نکاح کے ذریعے گھر کی مالکن کے مرتبے سے گرا کر وہی لونڈی کے درجے پر لے آئی ہیں
اور اس "جدید دور کی لونڈی" کا نام ہے "گرل فرینڈ"
جس کے بارے ابن آدم کا دعوی ہے کہ وہ اس کو گھٹیا سے گفٹ اور چند بار کی شاپنگ کے عوض "خرید" لیتا ہے
سوچنا عورت کو چاہیئے کہ وہ نکاح کر کے گھر بسانا چاہتی ہے یا "گرل فرینڈ" بن کر کسی کے لئے "ٹائم پاس" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
-
رضوان علی


اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم

اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم 
محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو چار سادہ سوالات ہیں اور اتنے ہی سادہ اور واضح ان کے جواب ہیں، مگر چونکہ ان پر کھل کربات نہیں ہوتی، اس لئے کنفیوژن چل رہا ہے۔ایک سوال جو بار بار پوچھا جاتا ہے،سوشل میڈیا اور بعض ویب سائیٹس پر اس حوالے سے دھواں دھار بحث بھی چل رہی ہے کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے یا مذہبی یعنی اسلامی۔ کئی دوستوں کو یہ بات سمجھ نہیںآتی کہ آخراسلامی ریاست پر اتنا اصرار کیوں؟ بعض کو اس پر حیرت ہے کہ آخر اسلامسٹ کی اصطلاح کیوں استعمال کی جا رہی ہے ، کیا ان لوگوں کو جو ان کے حامی نہیں، انہیں غیر مسلم تصور کیا جا رہا ہے؟برادرم وجاہت مسعودجیسے صاحب علم بھی یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ رائٹسٹ کے ساتھ اسلامسٹ کیوںلکھا جا رہا ہے۔اسی طرح کئی لوگ بڑی معصومیت سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ لبرل ازم کو معاشرے میں رائج کرنا چاہیے۔جس کی مرضی ، جو کچھ کرے، کوئی کسی کو روکے نہ ہی کچھ کرنے کے لئے اصرار کرے۔ پچھلے دنوں ویلنٹائن ڈے کی بحث میں اچھے خاصے دین دار گھرانوں کے نوجوان بھی یہ بات کہتے پائے گئے کہ ویلنٹائن کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی کے بجائے لبرل رویہ اپنانا چاہیے، کوئی منانا چاہے تو منا لے، نہ منانا چاہے تو اس سے دور رہے۔ اس پورے منظرنامے میںقابل ترس صورتحال روایتی مذہبی طبقے یا رائیٹ ونگ کی ہے۔ میڈیا میں ان کا مقدمہ پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسا کوئی نہیں جو سلیقے کے ساتھ، اعتدال اور توازن رکھتے ہوئے دلائل کے ساتھ ان کا نقطہ نظر واضح کرے۔ جو دو چار نوجوان جوش ایمانی سے اس پر قلم اٹھاتے ہیں، ان پردلیل کی جگہ جذبات غالب رہتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو ان اصطلاحات کو واضح کر دینا چاہیے۔ ہمارے ہاںسیکولرازم کا ترجمہ عام طور سے لادینیت کیا جاتا ہے، ہمارے سیکولر دوست اس پر بڑا تلملاتے اور برہم ہوتے ہیں۔ ان کی دل آزاری کے باعث میں لادینیت کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا، یہ اور بات کہ سیکولرازم آخری تجزیے میں اسی جانب ہی لے جاتا ہے۔سادہ الفاظ میں سیکولر ازم سے مراد ہے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے،تاہم ریاست غیر مذہبی ہوگی اور حکومتی معاملات سے مذہب کو دور رکھا جائے گا۔ اس سارے معاملے میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ خدا اور تصور خدا ریاستی معاملات سے بالکل آٹ ہوجاتا ہے۔ ایک سیکولر معاشرہ مذہب کو ہر ایک کا نجی معاملہ قرار دے کر اس میں مداخلت نہیں کرتا، یاد رہے کہ یہ اچھی سیکولرسوسائٹی کی بات ہو رہی ہے، ورنہ ترکی کے سخت گیر سیکولر اور عرب سپرنگ سے پہلے کے مصر، تیونس جیسے ممالک میں لوگوں کے لئے انفرادی طور پر بھی مسلمان رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ ترکی میں لمبے عرصے تک مساجد کو تالے لگے رہے، ڈاڑھی رکھنے اور سر پر سکارف تک لینے کی اجازت نہیں تھی۔ایک اچھے یا مہذب سیکولر معاشرے میں کسی شہری کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی ،مگر ریاست اپنے تمام قوانین ، ضابطوں اور اپنے نظریہ کی تمام تر بنیاد انسانی دانش اور قوانین پر رکھتی ہے۔ خدائی احکامات کسی سیکولر ریاست میںذرا برابر بھی اہم نہیں ہیں۔ 
ہماری تمام تر بحث چونکہ پاکستانی تناظر میںہور ہی ہے، مخاطب بھی پاکستانی ہیں، اس لئے ہم مقامی حوالوں کو اہمیت دیں گے ۔ رائیٹ ونگ یا رائٹسٹ ہونے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ یہ اصطلاح فرانسیی انقلاب کے دنوں میں سامنے آئی ، بعد میں ان میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ دنیا بھر میں رائیٹ ونگ سے مراد مذہبی سوچ رکھنے والے، قدامت پسندی یا روایتی اخلاقیات کو اہمیت دینے والے لوگ ہیں۔ مختلف ممالک میں یہ تقسیم مختلف ہے۔ جیسے امریکہ میں ری پبلکن پارٹی نسبتاً زیادہ مذہبی، قدامت پسند اورکسی نہ کسی حد تک اخلاقیات کی بات کرتی ہے، اس لئے امریکہ میں انہیں ایک طرح سے رائیٹ ونگ سمجھا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹ ان کے برعکس بہت زیادہ لبرل، فرد کی آزادی کے بہت زیادہ حامی ، ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل تک کی اجازت دینے کے حق میں ہوتے ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کو ایک لحاظ سے رائیٹ ونگ پارٹی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں یہ تقسیم بہت واضح ہے۔ یہاں پر رائیٹ ونگ سے مرادروایتی مذہبی طبقہ اور دینی سوچ رکھنے والا معتدل طبقہ ہے،جو اپنی روایتی اخلاقیات کو مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچانے کی بات کرتا ہے، جو چاہتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے، اس سسٹم کی خیر وبرکات لوگوں تک پہنچائی جائےں اور وہ معاشرہ تشکیل دیاجائے جو اللہ کو پسند ہے اور جس کی تلقین اللہ کے آخری رسول ﷺنے کی ہے۔ ہم رائیٹسٹ کو اسلامسٹ صرف اس بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگی کا محور خدا کی ذات ہونی چاہیے۔ یہ اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں، اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور مثالی اسلامی فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کا خواب دیکھتے اور اس کی خاطر کوشاں رہتے ہیں ۔
اسلامسٹوں یا رائٹسٹوں کا مطالبہ بڑا سادہ اور آسان ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک فرد کی انفرادی زندگی تو مذہب اور خدا کے تصور ، اس کے احکامات کے گرد گھومتی ہے، اس کی اجتماعی زندگی،معاشرے ، حکومت اور ریاست کا محور بھی خدا ہونا چاہیے۔ اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ ملک میں پاپائیت قائم ہوجائے یا ہر ادارہ مولوی صاحبان کے حوالے کر دیا جائے ۔ دینی طبقہ اپنا کام کر رہا ہے، دین سیکھنا، دین سکھاناان کا کام ہے،وہ وہی کرتے رہیں گے۔ اسلامی ریاست کے تصور کو سمجھنا مشکل نہیں۔ ہر ریاست کچھ قوانین بناتی ہے، کچھ چیزوں سے وہ روکتی اور کچھ کی اجازت دیتی ہے، ہر جگہ کچھ (Do’s and Don’ts) ہوتے ہیں۔ اب سیکولر ریاست ان تمام کا منبع انسانی عقل ،تجربات اور دانش سے لیتی ہے۔ جبکہ اسلامی ریاست اپنے قوانین ، اپنے ڈوز ، ڈونٹس کی انسپائریشن اسلام سے لیتی ہے۔ خدائی احکامات اس کا منبع ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے جو اسلامسٹوں اور سیکولرسٹوں کو الگ کرتا ہے۔اسلامسٹ خدائی قوانین پر اصرار اس لئے کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی دانش ، عقل غلطی کر سکتی ہے، دھوکہ کھاجاتی ہے، جبکہ خدائی احکامات کسی بھی قسم کی غلطی اور خطا سے پاک ہیں۔ وہ حتمی اور ہر زمانے کے مطابق درست ہیں۔ اسلامی ریاست اللہ کے قوانین کو اپنی عقل پر ترجیح دیتی ہے۔ جو چیزیں رب ذوالجلال نے حرام کر دیں، وہ کوئی ریاست حلال نہیں کرسکتی، اسی طرح حلال چیزوں کو کوئی حرام نہیں کر سکتا۔اسلامی ریاست مگر صرف حلال حرام کی بحثوں میں نہیں پڑی رہتی،ایسی ریاست کا بنیادی عقیدہ ہے کہ شہریوں کی فلاح وبہبود کا ماں کی طرح خیال رکھا جائے ۔ غیر مسلموںکے حقوق کا نہ صرف تحفظ بلکہ اس معاملے میں تو اصولاً ایثارکا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مسلمان شہری اپنے کچھ حقوق کی قربانی دے کر اپنے غیرمسلم بھائیوں کا خیال رکھیں۔اسلامی ریاست میں کسی بھی صورت میں ظلم باقی نہیں رہ سکتا، اسلامی معاشرے کا مرکزی جز عدل اور انصاف ہے ۔
اب پاکستان جیسے ملک میں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ....یہاں حکمران اشرافیہ، بدعنوان ظالم انتظامیہ اور طاقتور استحصالی طبقات کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، کرپشن ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، غریب کو انصاف میسر ہے نہ جینے کا حق۔ مہنگائی اورناجائز منافع خوری روکنے والا کوئی نہیں، ہر جگہ میرٹ پامال ہوتا ہے اور مافیاز طاقت پکڑ چکے ہیں،.... ایسے معاشرے میں فطری طور پر دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے بنیادی اجزا پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو رہا۔ ان تمام خرابیوں کی ذمہ داری ریاست کے مذہبی ہونے پر نہیں۔ نظام کی خامیاں خاص کر قانون کی عملداری نہ ہونا اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس لئے مذہبی سوچ رکھنے والوں کونئے فتنے پیدا کرنے کے بجائے اپنی بہترین صلاحیتیںاسلامی معاشرے کی تشکیل پر صرف کرنی چاہئیں، جبکہ سیکولر سوچ رکھنے والوں کو سیکولر ریاست کا خواب دیکھنے کے بجائے ریاستی نظام کی بہتری ، اس میں اصلاحا ت لانے پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان پچانوے فیصد سے زیادہ مسلم اکثریت رکھنے والا ملک ہے، جہاں کی بیشتر آباد ی دینی معاملات میں بے حد جذباتی ہے، نماز ، روزہ پڑھنے والے نہ بھی ہوں، تب بھی حرمت رسول ﷺپر وہ کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسی جگہ سیکولر ازم قطعی نہیں آ سکتا، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی رہے گا، سیکولر بنانے کی کوشش صرف اور صرف شدت پسندمذہبی تعبیر رکھنے والوں کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اپنی شناخت کا خوف انہیں مزید بنیاد پرستی پر اکساتا ہے۔ اس لئے اب ریاست کی ہئیت طے ہوچکی، اس کا نظام ٹھیک کرنا چاہیے، تمام توانائیاں اس سمت لگانا ہوں گی۔ اسے ہدف بنانا چاہیے، اگر ایسا ہوسکے توپھر سیکولروں اور اسلامسٹوں میں مشترکہ جدوجہد کے نکات طے ہو سکتے ہیں۔ 
http://dunya.com.pk/…/amir-khakw…/2016-02-22/14470/82529786…

The Great Book Robbery - A Film by Benny Brunner

میزائل ٹیکنالوجی کا بانی ٹیپو سلطان تھ



پیرس(نیوز ڈیسک)آج مغربی دنیا مسلمانوں کو پسماندہ قوم قرار دے رہی ہے لیکن ایک وقت تھا کہ جدید سائنس کی بنیاد مسلمان محققین رکھ رہے تھے اور خصوصاً طب، کیمسٹری اور فزکس جیسے تجرباتی مضامین کیلئے تو ان کی خدمات بے پناہ ہیں جنہیں دیانتدار تاریخ دان آج بھی سلام پیش کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید دور کی جنگوں میں استعمال ہونے والے اہم ترین ہتھیار راکٹ اور میزائل کی ایجاد بھی ایک نامور مسلمان جرنیل نے کی جس کا اب عالمی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے۔شیر میسور ٹیپو سلطان کا نام بہادری اور جرات کی مثال کے طور پر مشہور رہے لیکن ان کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ ان کی فوج نے دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ بارود سے چلنے والا راکٹ استعمال کیا جس نے انگریز فوج کے چھکے چھڑا دئیے۔
ان راکٹوں کی بنیاد ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کے دور اقتدار میں رکھی گئی لیکن ٹیپو سلطان نے انہیں دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار بنادیا۔
اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج ہندوستان کو روندتی چلی جارہی تھیں لیکن جب ان کا مقابلہ ریاست میسور کی افواج سے ہوا تو ان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
ریاست میسور اور برطانوی افواج میں ہونے والی دوسری جنگ میں کرنل ولیم بیلی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی فوج پر آسمان سے کیا قیامت برس رہی ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ میسوری فوج کے راکٹوں نے انگریزی فوج کے اسلحہ خانوں کو اڑا کر رکھ دیا اور جنگ میں ڈھیروں وسائل اور کثیر تعداد کے باوجود ریاست برطانیہ کو شرمناک شکست ہوئی۔ اس کے بعد میسور کی تیسری جنگ میں بھی ان راکٹوں کا شاندار استعمال کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اور یورپ میں ہلکے پھلکے راکٹ بنائے جاتے تھے جن کا خول گتے یا لکڑی کا ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہ بہت کم طاقت کے حامل تھے۔ اس کے برعکس ٹیپو سلطان کے راکٹوں کا خول لوہے سے بنایا جاتا تھا اور ان میں زیادہ بارود بھرا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ تلواروں جیسے تیز دھار بلیڈ بھی لگائے جاتے تھے اور ان کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ یہ دو کلومیٹر کے فیصلے تک عین نشانے پر لگتے تھے۔ انہیں چلانے کیلئے فوجیوں کو خصوصی تربیت دی جاتی تھی اور علیحدہ سے راکٹ بریگیڈ قائم کی گئی تھی جس کے پاس پہیوں والے راکٹ لانچر بھی ہوتے تھے۔ یہ لانچر بیک وقت درجن بھر راکٹ چلاتے تھے جو دشمن کی افواج پر گرتے وقت گھومنا شروع کردیتے تھے اور یوں درجنوں فوجیوں کو لمحوں میں کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔ فوجی راکٹ چلانے سے پہلے اس کے وزن اور ٹارگٹ کے فاصلے کی بنیاد پر اسے چھوڑنے کے زاویے کا یقین کرتے تھے اور ان کی تربیت اتنی اعلیٰ تھی کہ راکٹ عین نشانے پر گرتے تھے ٹیپو سلطان کے راکٹوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کے بعد اب بھارتی ریاست کرناٹکا میں واقع ان کے سرنگا پٹم قلعے کو راکٹ میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں دنیا کے پہلے راکٹوں سے لے کر آج کے جدید میزائل تک کی جنگی ٹیکنالوجی کو رکھا جائے گا تاکہ عظیم مسلمان جرنیل کو ان کے شایان شان خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔
جب انگریز فوج نے 4مئی 1799ءکو میسور پر قبضہ کیا تو وہ ٹیپو سلطان کی فوج کا بارود خانہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ انہوں نے اس طرح کے راکٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انگریز جرنیل ڈیوک آف ویلنگٹن ولزلی نے فوراً سے پہلے یہ راکٹ برطانیہ پہنچائے جہاں ان پر مزید تحقیق کی گئی اور برطانوی افواج کو جدید راکٹ ملے ۔ یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ جدید میزائل ٹیکنالوجی بھی اسی راکٹ کے مرہون منت ممکن ہوئی۔
.
http://javedch.com/special-features/2016/02/19/140047